حقیقی علم کی دولت حاصل
کرنے کے لئے تقویٰ شرط اولین ہے،اس کے بغیر علم کے الفاظ
اور معلومات میں اضافہ تو ہوسکتا ہے، مگر علم کی حقیقت حاصل نہیں
ہوسکتی۔
حضرت اقدس تھانوی فرماتے ہیں کہ یادرکھو! علم کی حقیقت کہ
احکام کو صحیح صحیح سمجھ جائیں، میں بقسم کہتا ہوں کہ وہ
بدون تقویٰ کے نصیب نہیں ہوتا، اگر دو آدمی ہم عمر
ہوں اور ایک ہی استاذ سے انھوں نے پڑھاہو، فہم و حافظے میں بھی
برابر ہوں لیکن فرق یہ ہو کہ ایک متقی ہو اور ایک
نہ ہو تو متقی کے علم میں جو برکت اور نور ہوگا اور جیسا فہم اس
کا صحیح ہوگا اور جیسے حقائق حقہ اس کے ذہن میں آئیں گے،
وہ بات غیر متقی میں ہرگز نہ ہوگی،اگرچہ اصطلاحی
عالم ہے اور کتابیں بھی پڑھاسکتا ہے مگر خالی اس سے کیا
ہوتا ہے، اگر تقویٰ ہوگا تو علوم حقہ قلب پر وارد ہوں گے، اب بھی
جس طالب علم کا دل چاہے تجربہ کرلے اور تقویٰ اختیار کرکے دیکھ
لے کہ کیسے کیسے علوم حاصل ہوتے ہیں، اگر خلوص سے تقویٰ
اختیار کیاجائے تو اس کی برکت کی تو حد نہیں، اگر
خلوص نہ ہوتو امتحان کیلئے کر کے دیکھ لو، اس کی برکت بھی
کچھ نہ کچھ دیکھ لوگے۔
لہٰذا طلبہ کو اہتمام کے ساتھ تقویٰ
اختیار کرنا چاہئے اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش
کرتے رہنا چاہئے۔
تقویٰ کی حقیقت
تقویٰ کااستعمال شریعت
میں دو معنی میں ہوتا ہے ایک ڈرنا، دوسرے بچنا اور تامل
کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود تو بچنا ہی ہے یعنی معاصی
سے مگر سبب اس کا ڈرنا ہے؛ کیونکہ جب کسی چیز کا خوف دل میں
ہوتا ہے، جب ہی اس سے بچا جاتا ہے، پس تقویٰ کا مفہوم ہوا تمام ظاہری
باطنی گناہوں سے بچنا اور وہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ معاصی سے بچا
جائے اور مامورات کو بجالایا جائے کیونکہ ترک ماموربہ بھی معصیت
ہے۔
لہٰذا طالب علم کو تمام معاصی
سے پرہیز کرنا چاہئے اور مامورات کو بجالانے کی کوشش کرنا
چاہئے۔ (افاضات)
بالخصوص آنکھ، کان، زبان اور دماغ ان
چاروں اعضاء کے غلط استعمال سے حتی الامکان بچے کہ یہ چاروں علم کے
ذرائع ہیں اور انہی راستو ں سے علم کانور اندر داخل ہوتا ہے؛
لہٰذا ان کو پاک صاف رکھے، کہ جب یہ گندے ہوں گے تو علم کا وہ نور جو
معرفت الٰہیہ اور تعلق مع اللہ کاذریعہ ہوگا اندر داخل نہیں
ہوسکتا اور علم صحیح طریقہ پر محفوظ نہیں رہ سکتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کا مقولہ ہے کہ گناہ کرنے سے آدمی وہ علم بھی بھول
جاتا ہے جو حاصل کرچکا تھا۔
حضرت عمر نے حضرت کعب سے
پوچھا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا کہ کبھی
خاردار جھاڑی والے راستہ پر چلے ہو؟ حضرت عمر نے فرمایا جی
ہاں! دریافت کیا کیسے چلے ہو؟ فرمایا دامن سمیٹ کر
کپڑوں اور بدن کو پورے طورپر بچا کر کہ کہیں کوئی کانٹا کپڑے یا
بدن پر نہ لگ جائے، فرمایا یہی تقویٰ ہے۔
حضرت عبداللہ بن مبارک کے اشعار ہیں:
رَئَیْتُ
الذُّنُوْبَ تُمِیْتُ الْقُلُوبَ وَیُوْرِثُکَ
الذُّلَّ اِدْمَانُہَا
وَتَرْکُکَ
الذُّنُوْبَ حَیَاةُ الْقُلُوبِ وَخَیْرٌ
لِنَفْسِکَ عِصْیَانُہَا
ترجمہ: گناہوں سے دل مرجاتے ہیں اور
گناہ کی زندگی ذلت لاتی ہے اور گناہوں سے اجتناب میں دلوں
کی زندگی ہے، نفس کی مخالفت ہی میں بھلائی
ہے۔ (جامع)
خوف و خشیت کا مدار علم پر ہے
ارشاد باری عز اسمہ ہے : اِنَّمَا یَخْشَی
اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ o اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌo
ترجمہ: خدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے
ہیں جو علم رکھتے ہیں واقعی اللہ تعالیٰ زبردست بڑا
بخشنے والا ہے۔ (بیان القرآن)
صاحب روح المعانی فرماتے ہیں
کہ علماء سے وہ لوگ مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات
کی عظمتوں سے باخبر ہیں، نہ یہ کہ صرف صرف و نحو پر عبور رکھتے
ہوں، پس خشیت کا مدار اللہ تعالیٰ کی معرفت کے علم پر ہے،
جو جتنا عارف باللہ ہوگا اتنا ہی اللہ سے ڈرنے والا ہوگا، جیسا کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَنَا
اَعْلَمُکُمْ بِاللّٰہِ وَاَخْشَاکُمْ بِہ، کہ میں تم میں سب سے زیادہ
اللہ کا علم رکھتا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا
ہوں۔ (روح المعانی)
معلوم ہوا کہ بغیر حقیقی
علم کے خوف و خشیت پیدا نہیں ہوتا اور نہ علم کی ذمہ داریوں
کااحساس پیدا ہوتا ہے۔
حضرت ابودرداء فرماتے تھے کہ اس خوف سے
لرز رہا ہوں کہ قیامت کے دن حساب کتاب کے لئے کھڑا کیا جاؤں اور پوچھا
جائے تونے علم تو حاصل کیا تھا مگر اس سے کام کیا لیا؟
صحابہ کا کمال احتیاط و تقویٰ
بخاری شریف میں حضرت
انس کی روایت ہے:
عَنْ
اَنَسٍ قَالَ اِنَّکُمْ لَتَعْمَلُوْنَ اَعْمَالاً لَہَی اَدَقُّ فِی
اَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعْرِ کُنَّا نَعُدُّہَا عَلٰی عَہْدِ
رَسُولِ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْةِ وَسَلَّمَ مِنْ
الْمُوْبِقَاتِ یَعْنِی الْمُہْلِکَاتِ رواہ البخاری․
ترجمہ:حضرت انس نے (اپنے زمانے کے
مسلمانوں کو مخاطب کرکے) فرمایا کہ تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری
نظر میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں لیکن ہم
ان کاموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موبقات یعنی
ہلاک کرنے والے کاموں میں شمار کرتے تھے۔
مطلب یہ ہے کہ تم لوگ ایسے
کام کرتے ہو اور ایسی ایسی چیزیں اختیار
کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بہت معمولی درجہ کی اور بہت حقیر
ہیں، زیادہ سے زیادہ تم ان کو مکروہات میں شمار کرتے ہو،
لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کام اور وہ چیزیں بڑی
نقصان دہ ہیں اور بڑی تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں،
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم لوگ ایسے
کاموں کو بھی ان کاموں میں شمار کرتے تھے جو اخروی انجام کے
اعتبار سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہیں۔ (مظاہر حق جدید)
ایک حدیث میں ہے، حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یا
عَائِشَةُ اِیَّاکِ وَمُحَقِّرَاتِ الذُّنُوبِ فَاِنَّ لَہَا مِنَ
اللّٰہِ طَالِبًا“ (ابن ماجہ والدارمی) کہ اے عائشہ! تم اپنے آپ کو ان گناہوں سے بھی
دور رکھو جن کو معمولی اور حقیر سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ ان
گناہوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مطالبہ کرنے والا بھی
ہے۔
علمی وعملی ترقی میں حلال کمائی کااثر
علمی وعملی ترقی میں
حلال و پاکیزہ کمائی کا بہت بڑا دخل ہے، کہ حلال کھانے پر قلب میں
ایک نورانیت محسوس ہوتی ہے جس سے نیک اعمال کی توفیق
میسر آتی ہے اور حرام و مشتبہ کھانے پر قلب میں ایک ظلمت
سی چھا جاتی ہے جس سے توفیق طاعات بھی سلب ہوجاتی
ہے اور ترقی کا دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم کُلُوْا
مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا میں اکل حلال کے بعد عمل صالح کی
ترتیب سے اسی طرف اشارہ ہے کہ ترقی اور صالح زندگی کی
بنیاد میں اکل حلال کو بڑا دخل ہے۔
حضرت مفتی محمود حسن صاحب نے ارشاد فرمایا کہ کانپور میں مجھ سے ایک صاحب
نے (جن کے والد بڑے نیک تھے اور ان کی یہ حالت نہ تھی)دریافت
کیا کہ حضرت ! اب پہلے جیسے علماء کیوں پیدا نہیں
ہوتے؟ میں نے کہا پہلے تم بتلاؤ کہ تم اپنے والد جیسے کیوں نہیں؟
تمہارے والد تو ایسے ایسے تھے تم ایسے کیوں نہیں؟
پھر کہا پہلے جیسے استاذ ہوتے تھے ویسے ہی ان کے شاگرد ہوتے
تھے، اب مجھ جیسا استاذ ہے تو شاگرد بھی مجھ جیسا ہوگا۔
نیز پہلے کے لوگ خون پسینہ ایک
کرکے جائز طریق سے کماتے تھے اور حرام سے اجتناب کرتے تھے، اسی خالص
حلال کی کمائی سے اخلاص کے ساتھ چندہ دیتے تھے، وہی طلبہ
پر صرف ہوتا تھا، اس لئے اس کے اثرات اچھے نمودار ہوتے تھے اور بہترین علماء
تیار ہوتے تھے اور اب لوگوں میں حلال حرام کی تمیز نہیں
رہی، بس مال کے پیچھے پڑتے ہیں، کسی طرح ملنا چاہئے گو
حرام ہی ہو، اسی سے چندہ دیتے ہیں، اگر حلال کمائی
ہوئی بھی تو اس میں عامةً اخلاص نہیں ہوتا، وہی
طلبہ پر صرف ہوتا ہے، بس جیسا مال ویسے ہی اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔
(ملفوظات فقیہ الامت)
اسلاف کا تقویٰ و احتیاط
ہمارے اسلاف کی زندگیاں تقویٰ
وطہارت سے مزین تھیں، احکام شرع میں اپنی ذات کے بارے میں
معمولی معمولی چیزوں میں بہت زیادہ احتیاط
برتتے تھے۔
حضرت امام ابوحنیفہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر فائق تھے،
چنانچہ کوفہ میں ایک مرتبہ کسی کی بکری چوری
ہوگئی تو آپ نے سات سال تک بکری کا گوشت نہیں کھایا، اس
لئے کہ بکری کی عمر سات سال ہوتی ہے۔ (مفتاح العادة)
ایک مرتبہ سخت گرمی اور دھوپ
میں آپ مکانوں کے سایہ میں چل رہے تھے کہ ناگاہ ایک مکان
کے قریب سایہ سے نکل کر دھوپ میں چلنے لگے، کسی نے وجہ
پوچھی تو آپ نے فرمایا اس گھر کے مالک نے مجھ سے قرض لیا ہے، میرے
لئے اس گھر کے سایہ سے نفع اٹھانا تقویٰ کے خلاف ہے۔
حضرت امام بخاری فرماتے تھے کہ ”مَا اغْتَبْتُ اَحَدًا مُذْعَلِمْتُ
اَنَّ الْغِیْبَةَ حَرَامٌ“ جس وقت سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ غیبت حرام ہے،
میں نے کسی کی غیبت نہیں کی، قیامت کے
دن غیبت کے بارے میں کسی کا ہاتھ میرے دامن میں نہیں
ہوگا۔
احمد بن فقیہ کہتے ہیں کہ
میں نے امام ابوالحسن اشعری کی بیس
سال خدمت کی، میں نے ان سے زیادہ متورع، محتاط، باحیا، دنیوی
معاملات میں شرمیلا اور امور آخرت میں مستعد نہیں دیکھا۔(تاریخ
دعوت و عزیمت)
امام ترمذی تقویٰ،
زہد اور خوف خدا اس درجہ رکھتے تھے کہ اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا
جاسکتا، خوف الٰہی سے بکثرت روتے روتے آنکھوں کی بینائی
جاتی رہی تھی۔
امام نسائی کے حالات میں ہے
کہ زہد و تقویٰ میں یکتائے روزگار تھے صوم داودی پر
ہمیشہ عمل پیرا رہتے تھے۔
ہمارے اکابر میں حضرت مولانا مظفرحسین
صاحب کاندھلوی کاتقویٰ مشہور ہے۔ تقویٰ و احتیاط
کا یہ اثر تھا کہ حضرت کا معدہ مشتبہ چیز کو قبول نہیں کرتا
تھا، فوراً قے ہوجاتی تھی،اس کی وجہ سے حضرت کے اعزہ و احباب
اور جہاں کہیں تشریف لے جاتے تو میزبانوں کو فکر ہوجاتا کہ کہیں
حضرت کے کھانے کے بعد رسوائی نہ ہو۔ (تذکرة الخلیل)
رہے
گا توہی جہاں میں یگانہ ویکتا
اتر
گیا جو تیرے دل میں لاشریک لہ
حضرت علامہ بلیاوی کے حالات میں ہے کہ کمسنی میں ہی تقویٰ
وطہارت، زہد وقناعت جیسی صفات سے متصف تھے، بچپن ہی سے نامحرم
عورتوں سے پردہ کرتے تھے، نیز مشتبہ کھانے سے پرہیز کرتے تھے، بعض
دفعہ ایسا بھی ہوا کہ مشتبہ کھانے کومعدہ نے قبول نہ کیا اور قے
ہوگئی۔
پہلے مدارس کے مہتممین، اساتذہ اور
طلبہ کا یہ حال تھا کہ وہ مدرسہ کے پیسوں اور اس کی املاک کو
پھونک پھونک کر استعمال کرتے تھے کہ کہیں حدود سے تجاوز نہ ہوجائے، ان کو
اپنی آمدنی بڑھانے کے بجائے اس بات کی فکر دامن گیر رہتی
تھی کہ جو تنخواہ ہم وصول کررہے ہیں وہ ہمارے لئے حلال بھی ہے یا
نہیں؟ اس کا حق ادا ہورہا ہے یا نہیں؟
حضرت مولانا رفیع الدین صاحب
مہتمم دارالعلوم دیوبند کی گائے ایک مرتبہ کسی نے مدرسہ
کے صحن میں لاکر باندھ دی، کسی شخص نے اس پر اعتراض کیاتو
حضرت مولانا نے اس کی جواب دہی کے بجائے وہ گائے صدقہ کردی۔
حضرت مولانا حافظ عبداللطیف صاحب
مہتمم مظاہر العلوم کو کبھی مطبخ کی کارکردگی کے معاینہ
کے لئے کھانا چکھنا ہوتا تو پہلے ایک خوراک خریدتے پھر چکھ کر باقی
سالن واپس کردیتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ، مہتممین
اور طلبہ کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔
لیکن جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو بزرگوں کے اس طرز عمل کے
ساتھ کوئی دور کی نسبت بھی نظر نہیں آتی۔
(ہمارا تعلیمی نظام)
تمام
عمر اسی احتیاط میں گذری
کہ
آشیانہ کسی شاخ گل پر بار نہ ہو
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کا تقویٰ و احتیاط
حضرت گنگوہی کے متعلق تذکرة الرشید
میں لکھا ہے کہ اپنے معاملہ میں آپ کاتقویٰ واحتیاط
اس قدر تھا کہ مسئلہ مختلف فیہا میں قول راجح پر اقرب الیٰ
الاحتیاط کو اختیار فرمایا کرتے تھے باوجود ضرورت کے احتیاط
کو بالکل نہیں چھوڑتے تھے، آپ کے احتیاط کی ادنیٰ
مثال یہ ہے کہ آپ نے اپنے امراض میں کیسا ہی شدید
مرض کیوں نہ ہو کبھی بیٹھ کر نماز نہیں پڑھی۔
مرض الموت میں جب تک اس قدر حالت رہی
کہ دو آدمیوں کے سہارے سے کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکے اس وقت تک اسی طرح
پڑھی کہ دو تین آدمیوں نے بمشکل اٹھایا اور دونوں جانبوں
سے کمر میں ہاتھ ڈال کر لے کر کھڑے ہوگئے اور قیام و رکوع و سجود غرض
پوری نماز انہیں کے سہارے سے ادا کی، ہر چند خدام نے عرض کیا
کہ حضرت بیٹھ کر نماز ادا کیجئے، مگر نہ کچھ جواب دیا نہ قبول
فرمایا:
ایک روز مولانا یحییٰ
صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اگر اس وقت بھی جائز نہیں تو پھر کونسا
وقت اور کونسی حالت ہوگی جس میں بیٹھ کر نماز پڑھناشرعاً
جائز ہے، آپ نے فرمایا قادر بقدرة الغیر تو قادر ہوتا ہے اور جب میرے
دوست ایسے ہیں کہ مجھ کو اٹھاکر نماز پڑھاتے ہیں تو میں کیونکر
بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آخر نوبت ضعف اس قدر پہنچ گئی کہ دوسروں
کے سہارے بھی کھڑے ہونے کی قدرت نہ رہی، تو اس وقت چند وقت کی
نمازیں آپ نے بیٹھ کر پڑھیں، گویا بتلادیا کہ اتباع
شرع اس کو کہتے ہیں،تقویٰ اس کا نام ہے، اختیار احوط اس
طرح ہوتا ہے۔
حضرت مولانا عنایت علی صاحب کاتقویٰ واحتیاط
حضرت مولانا عنایت علی صاحب
مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کے مہتمم تھے تقویٰ و احتیاط کا یہ
عالم تھا کہ مدرسہ کے سالانہ جلسہ کے موقع پر سینکڑوں افراد کے کھانے کا
انتظام فرماتے اور ایک وسیع دسترخوان لگتا، لیکن خود کا یہ
حال تھا کہ کبھی مدرسہ کے کھانے میں شریک نہ ہوتے، جب رات گئے
انتظامات سے فارغ ہوتے تو اپنے گھر سے لایا ہوا ٹھنڈا سالن ایک کونے میں
بیٹھ کر کھالیتے تھے، یہ بھی ایک زندگی تھی۔(ہمارا
تعلیمی نظام)
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا
صاحب کاتقویٰ واحتیاط
حضرت شیخ کو اللہ تعالیٰ
نے گونا گوں صفات سے مزین فرمایا تھا، مظاہر العلوم کی مسجد کے
باہر چند پھول کے درخت لگے ہوئے تھے، جب ان پودوں پر پھول نکلے تو ایک مخلص
طالب علم کچھ پھول لے کر حضرت کی خدمت میں پہنچے اور عقیدت میں
پھول پیش کئے، حضرت نے دریافت کیا کہاں سے لائے؟ انھوں نے صورت
حال بتائی تو فرمایا وہ زمین وقف کی ہے، اس سے فائدہ اٹھانا
طلبہ کو تو جائز ہے میرے لئے جائز نہیں ہے، قبول فرمانے سے انکار فرمایا
بعض دوسرے طلبہ سے معلوم ہوا کہ وہ پودینہ لے کر گئے مگر حضرت نے قبول نہیں
فرمایا۔ (مولانا زکریا صاحب اور ان کے خلفاء)
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:
90 ،جمادی الثانی 1427 ہجری مطابق جولائی2006ء